ٹیلی ویژن کے بچوں پر اثرات 161

ٹیلی ویژن کے بچوں پر اثرات

ٹیلی ویژن جو کہ دورِ حاضر کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ 1925 ؁ء میں “جان لوگی پیئرڈ”نے ایجاد کیا۔ ٹیلی ویژن دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔”ٹیلی”کا مطلب”Far away”یعنی بہت دور سے اور “Vision”کے معنی دیکھنا کے ہیں۔ ٹیلی ویژن کی ایجاد سے دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا ۔ 
اور آج کل جتنی اہمیت الیکٹرانک میڈیا کو حاصل ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیلی ویژن نے بچوں پر بہت مثبت اثرات مرتب کئے ہیں اور ہر میدان یعنی ادبی، تعلیمی معاشرتی، ثقافتی ، کھیل میں مکمل رہنمائی فراہم کی ہے۔ لیکن اس کے منفی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک جدید ریسرچ کے مطابق پاکستان میں اسوقت 1.5ملین ٹیلی ویژن سیٹ استعمال میں ہیں جن میں سے روزانہ 7گھنٹے سے زائد ٹرانسمیشن نشر ہوتی ہے۔ اور 2لاکھ سے زائد ناظرین ہر روز ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ ایک ترقی یافتہ ملک کے لحاظ سے تو یہ ایک آئیڈیل صورتِ حال ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسا ملک جس کا ریٹ آف لٹریسی اور آمدن فی بندہ بہت کم ہو۔ اس کے لئے یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے بچے جن کی عمر تین سال سے کم ہے وہ ٹیلی ویژن کو مسلسل نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ ان کی توجہ کا احاطہ اتنا وسیع نہیں ہوتا۔ وہ جلدی تھک جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ والدین جوکہ ورکنگ ہوتے ہیں وہ بھی بچوں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتے۔ یہاں تک کہ گھر میں رہنے والی ماؤں کی جاب بھی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ کھانا پکانا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا، گھر کا خیال رکھنا۔ ایسے میں مائیں چھوٹے بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے انہیں ٹیلی ویژن “On”کر کے اسکے آگے بٹھا دیتی
ہیں جس سے بچوں میں “Verbal Communication”کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ بہت دیر تک کچھ بو ل نہیں پاتے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن ہر عمر کے لوگ بہت ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ہر پیش کئیے جانے والے پروگرام کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن بچے حقیقت اور تصوراتی میں فرق نہیں سمجھ پاتے ان کے نزدیک جو دکھایا جا رہا ہے وہ سب سچ ہے۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک والدین جب کسی کے گھر جاتے تھے تو بچے بھی بڑے شوق سے اُن کے ساتھ جاتے تھے۔ جبکہ آجکل حالات یہ ہیں کہ بچے خود تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایسا کریں آپ لوگ جائیں ہم گھر پہ ٹی وی دیکھیں گے، اور والدین بھی بنا کسی جھجھک میں پڑے فی الفور راضی ہو جاتے ہیں۔۔
اسی طرح کھانا کھانے کے اوقات میں بھی ٹی وی آن ہوتا ہے جو افراد کھانا پہلے کھانے کی میز پر ایکدوسرے سے حال احوال اور روزمرہ کی روٹین کے بارے میں بات چیت کرتے تھے اب اس کی جگہ ٹی وی نے سنبھال لی۔
یہاں تک کہ ہم لوگوں نے اپنے ڈرائنگ رومز تک میں ٹی وی سیٹ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی دیرینہ یا پرانا ملنے والا ہم سے ملنے اور دو گھڑی گپ شپ لگانے آیا ہے تو وہ اپنی یہ خواہش دل میں دبائے ہی واپس چلا جائے کیونکہ افراد خانہ ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں اور وہاں ان کا پسندیدہ سوپ سیریل چل رہا ہے جسے کسی صورت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ سو مہمان اور میزبان دونوں خاموش ہیں اور ٹیلی ویژن بول رہا ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آجکل کے بچے ہوم ورک بھی ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ کر کرتے ہیں اس طرح کرنے سے نہ صرف ان کی نظر پر اثر پڑتا ہے بلکہ توجہ بھی سخت منتشر ہوتی ہے۔ کیونکہ ٹی وی میں پروگرامز کے دوران لمبے لمبے وقفے آتے ہیں جس میں پھر اشتہارات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا
ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ
“اچھے بھلے اشتہارات چل رہے تھے کہ بیچ میں آن ٹپکا ایک ڈرامہ خوامخواہ “
ان Advertisementمیں بچوں کو نہایت چٹ پٹے تیز مصالحے والی productکو خریدنے اور کھانے پر اکسایا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں کسی کارٹون سٹیکر یا Tatoosکا لالچ دے کر ان کی توجہ کو مکمل طور پر اپنی طرف لگا لیا جاتا ہے اس سے نہ صرف بچوں کی توجہ متاثر ہوتی ہے بلکہ ایسی چٹ پٹی مصالحے والی چیزیں کھانے سے وہ سخت بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں آجکل جو ٹی وی ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں ان میں بڑی حد تک پڑوسی ملک کے گلیمر کی copyنظر آتی ہے۔ جس میں کھلے عام لڑائی، مار کٹائی، ایکشن، دولت کو حاصل کرنے کے ناجائز طریقے اور پیار محبت کے قصے بڑی تفصیل سے دکھائے جاتے ہیں جس سے نہ صرف چھوٹے بچے بلکہ ٹین ایجرز بھی ڈرامے کے “اصل پیغام”کو سمجھنے کی بجائے منفی پہلوؤں کو زیادہ اختیار کرتے ہیں اور چھوٹے بچے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ وہ حقیقت اور فینٹسی میں فرق کو جانچ نہیں سکتے سو وہ بھی اُلجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور ماردھاڑ اور violenceکو دیکھ کر سخت خوف میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
سو والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے ان مسائل کی طرف نظر کریں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ ان تمام باتوں کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ والدین بچوں کے ٹیلی ویژن دیکھنے پر پابندی لگا دیں بلکہ انہیں چاہئے کہ:
۱۔ وہ انہیں ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق ٹی وی دیکھنے دیں اور ساتھ ہی ان پر نظر بھی رکھیں اور کوشش کریں کہ ساتھ ساتھ انہیں یعنی بچوں کو واضح کر کے بتاتے جائیں کہ یہ سب کچھ حقیقت میں نہیں ہوتا بلکہ ایک بنائی ہوئی اور مشق کی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کے ذہنوں کو کھولنے کی کوشش کریں۔
۲۔ بچوں کے لئے نیشنل جیوگرافک چینل بھی کافی فائدہ مند ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ ایک اچھی اور دلچسپ ڈاکومینٹریز، خوبصورت اور دیدہ زیب تصویروں اور جگہوں اور مقام پر جائے بغیر ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
۳۔ والدین کو بھی اپنا فارغ ٹائم بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گزارنا چاہئے اور انہیں personalyاپنے ساتھ باتوں میں شامل کر کے ان کے verbal communicationکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
۴۔مہمانوں کے آنے پر ٹیلی ویژن کو بند کر دیں اور جاندار شخصیتوں کو جو کہ آپکی توجہ کی منتظر ہیں ان کو اہمیت دیں نہ کہ مصنوعی رابطوں کو۔
۵۔ بچوں کو تھوڑا الگ ٹائم دیں تاکہ وہ اپنی پسند کے پروگرام دیکھ سکیں جیسا کہ بچے ایڈونچر، کارٹون، سپورٹس کو پسند کرتے ہیں اور بچیاں معاشی، معاشرتی، ڈرامے اور میوزک کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ لیکن ان پر ان سب کے ساتھ نظر ضرور رکھیں تاکہ آپ کے بچے مستقبل کا ایک روشن ستارہ بن سکیں۔ اور آخر میں یہ پیغام تمام والدین کے لئے کہ 
“Watch the Television & watch your Children, Together you will open all the possible doors on them.”
“آپ ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی نظر رکھیں تاکہ آپ ان کے لیے دونوں دروازے ایک ساتھ کھول سکیں”
تحریر:راشدہ اقبال گھمن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں